Add To collaction

سوچئے تو





 "
غزل

سوچئے تو اس جہاں میں آدمی ہے خودغرض

دیکھئے تو ہر کسی کی زندگی ہے خودغرض

دشمنی کا ذکر کیا ہے دوستی ہے خودغرض

کل بھی دنیا خود غرض تھی آج بھی ہے خودغرض
 
کھل گیا عقده ذرا سی دیر میں انسان کا

غم تو سب پہ مہرباں ہے پر خوشی ہے خودغرض

کیسا رخ بدلا زمانے سے وفا جاتی رہی

ہے امیری بے حیا اور مفلسی ہے خودغرض

آگئیں بربادياں حصّے میں ساری باغ کے


بن کے جو بادِ صبا یارو! چلی ہے خودغرض
 
شاعر مرادآبادی

   15
1 Comments

वानी

15-Jun-2023 06:16 PM

Nice

Reply